قریش مکہ کو غزوہ بدر میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 1اس باقاعدہ جنگ (غزوہ) میں ان کے بڑے بڑے سورما مثلاً عتبہ، شیبہ اور ابو جہل سمیت 70 کفّار، مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ 2 اوران کے 70 جنگجو مسلمانوں کے ہاتھوں یرغمالی بن کر مسلمانوں کے قبضے میں آئے۔3 مسلمانوں کے ہاتھوں اس شکست کی وجہ سے، قریشِ مکہ مسلمانوں سے بدلہ لینے کے لیے بے چین تھے۔ 4 اسی سبب سے غزوہ سویق پیش آیا جس میں قریش اپنا مقصد حاصل کیے بغیر مسلمانوں کے خوف سے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوئے ۔ بعد میں یہی غزوہ ، غزوہ اُحد کا سبب بھی بنا۔
یہ غزوہ معرکہ بدر کے تقریبا ڈھائی ماہ بعد ذوالحجہ کے مہینے اور سن دو 2 ہجری میں پیش آیا۔ 5 پانچ ذوالحجہ اتوار کو حضورﷺاس غزوہ کے لیے ابو سفیان اور اس کے لشکریوں کے پیچھے روانہ ہوئے اور آپ ﷺکی واپسی مدینہ منوّرہ نو9 ذی الحجہ کو ہوئی۔6کل پانچ 5 دن تک حضور ﷺ اور مجاہدین اسلام اس غزوہ میں مصروف رہے۔ حضور ﷺاور آپ کے ساتھ مجاہدین کو اس غزوہ میں بہت بڑی مقدار میں کفّار مکہ کے لشکر کے پھینکے ہوئے ستو کے بورے ہاتھ لگے جو لشکر کفّار نے پھینک دیئے تھے۔7ستو کے یہ بورے مسلمان لشکر کو بطور مال غنیمت کے حاصل ہوئے جس کی وجہ سے اس غزوہ کو سَویق کہا جاتا ہے۔ 8
اس غزوہ کا سب سے بڑا سبب ابو سفیان کی طرف سے غزوہ بدر میں اپنی شکست، اپنے مقتول سرداروں اور قریش کے روساء کے قتل کا بدلہ لینا تھا جس کے لیے اس نے قسم کھائی تھی کہ میں حضور ﷺاور آپ کے صحابہ
سے جب تک بدر کے مقتولین کا بدلہ لے نہ لوں اس وقت تک نہ تو اپنی بیوی کے قریب جاؤں گا اور نہ ہی اپنے جسم پر خوشبو لگاؤں گا۔9
اپنے اس مقصد کے حصول کے لیے وہ منصوبہ بندی کرتا رہا اور اہل مکہ کے ساتھ ساتھ اپنے دوست قبائل کو بھی مسلمانوں سے انتقام لینے کے لیے اُکساتا رہا۔اس حوالے سے اس نے چند اشعار بھی کہے جو درج ذیل ہیں۔
كروا على يثرب وجمعهم
فإن ما جمعوا لكم نفل
إن يك يوم القليب كان لهم
فإن ما بعده لكم دول10
واللات لا أقرب النساء ولا
يمس رأسي وجلدي الغسل
حتى تبيروا قبائل الأوس
والخزرج، إن الفؤاد مشتعل 11
تم یثرب اور اس کے رہنے والوں پر ٹوٹ پڑو، ان کا جمع کردہ (مال و متاع) سب کچھ تمہارا ہی اضافی مال ہے۔ اگر بدر کا دن ان کے حق میں رہا ہے تو کیاہوا، اس کے بعد غلبہ تو اب تمہاراہی مقدر ہے۔میں نے لات کی قسم کھائی ہے کہ میں نہ تو عورتوں کے قریب جاؤں گا، نہ اپناسر دھوؤں گا اور نہ غسل کروں گا، یہاں تک کہ تم اوس وخزرج کے قبائل غارت کرڈالو، کیونکہ انہوں نے میرےدل کی آگ کوبھڑکا دیا ہے۔
ابو سفیان اپنی قسم پوری کرنے کے لیے غزوہ بدر کے ڈھائی ماہ بعد 200 سواروں کے ساتھ مدینہ منوّرہ پر حملہ آور ہونے کے لیے مکہ سے روانہ ہوا۔اس نے اپنی روانگی کو خفیہ رکھنے کے لیے عام راستہ اختیار کرنے کے بجائے لمبا اور غیر معروف راستہ اختیار کیا جو نجد سے ہو کر گزرتا تھا ۔سفر کرتے ہوئے ابو سفیان کا یہ لشکر مدینہ کی ایک وادی قنا ہ سے گزر کر یتیب نامی پہاڑ کے دامن میں پہنچ گیا جہاں اس کے لشکر نے اپنا پڑاؤ ڈالا۔یہ جگہ مدینہ طیبہ سے ایک برید یعنی 28 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھی۔ 12
ابو سفیان رات کے اندھیرے میں تن تنہا یہود کے قبیلہ بنو نضیر کے پاس پہنچا۔اس نے اس قبیلے کے سردار حیی بن اخطب یہودی کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن اس نے دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا 13کیونکہ وہ مشرکین مکہ کے خلاف مسلمانوں کی قوت و طاقت کا اندازہ بدر کے میدان میں لگا چکا تھا ۔ لہٰذا اپنے آپ اور اپنے قبیلے کو اس موقع پر ہر قسم کی ذلت اور رسوائی سے بچانا چاہتا تھا۔
اس کے بعد وہ ایک دوسرے یہودی سردار سلام بنمشکم کے پاس حاضر ہوا جو یہودیوں کے مالی معاملات کا نگران بھی تھا۔اس یہودی سردار نے بغیر کسی انتظار کے ابو سفیان کے لیے اپنا دروازہ فوری طور پر کھول ڈالا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے ابو سفیان کی میزبانی اور خاطر مدارت کا خوب خوب حق ادا کیا کیونکہ اس نے ابو سفیان کی پُرتکلف ضیافت، شراب و کباب سے کی۔ 14یہودی سردار سلام بنمشکم نے ابو سفیان کو مسلمانوں کے حالات اور ان کے کئی معاملات پر آگاہ کر کے اسے زبانی حمایت کی حد تک اپنی مدد و نصرت کی امید دلائی۔ 15ابو سفیان کے چند اشعار اس جانب اشارہ کرتےہیں:
وإني تخيرت المدينة واحدا
لحلف فلم أندم ولم أتلوم
سقاني فرواني كميتا مدامة
على عجل مني سلام بن مشكم
ولما تولى الجيش قلت ولم أكن
لأفرحه: أبشر بعز ومغنم
تأمل فإن القوم سر وإنهم
صريح لؤي لا شماطيط جرهم
وما كان إلا بعض ليلة راكب
أتى ساعيًا من غير خلة معدم 16
میں نے اہلِ مدینہ سے ایک قابلِ ذکر شخص کو وعدہ کرنے کے لیے پسند کیا تو اس پر نہ تو مجھے پچھتاوا ہے اور نہ ہی میں نے ایسا کوئی کام کیا جس پر مجھے ملامت کیا جاسکے۔ سلام بنمشکم (یہودی سردار)نے میری مہمان داری سرخ و سیاہ شراب سے اس قدر کی کہ شراب نے مجھے سیر کردیا۔ حالانکہ میں وہاں سے جلد از جلد نکلنا چاہتا تھا، اور جب اس نے اہلِ مکہ کے لشکر کی سرپرستی پر آمادگی ظاہر کی تو میں نے اس لشکر کے ذریعہ اسے دشمن کے ساتھ ہونے والی جنگ اور ان سے حاصل ہونے والے مالِ غنیمت کے حصول کی خوشخبری سنائی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے ساتھ جانے والا لشکر عام افراد پر مشتمل نہیں تھا بلکہ عرب کے سرداروں کی خالص اولاد پر مشتمل تھا جو بنو جرہم کی طرح حسب و نسب میں گُڈ مُڈ نہیں تھا۔ میں نے وہ رات باقاعدہ مہمان بن کر سلام بنمشکم کے پاس نہیں گزاری ورنہ اس کی مہمان نوازی اور نوازشات کا کوئی حساب و کتاب اور شمار ہی نہ ہوتا۔
ابو سفیان نے یہودی سردار کی گفتگو سے اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ یہودی اس وقت اسے کسی بھی قسم کی مالی و افرادی مدد فراہم کرنے سے قاصر ہیں اور اس ڈر کا شکار ہیں کہ اگر وہ ابو سفیان کا ساتھ دے کر مسلمانوں کے خلاف لڑتے ہیں تواس کے نتیجے میں یہودیوں کو بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے بہت بڑے پیمانے پر نقصان پہنچ سکتا ہے۔چنانچہ سلام بنمشکم سے مسلمانوں کے بارے میں ساری معلومات پر خبریں لے لینے کے بعد ابو سفیان واپس اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا اور ان سے صلاح و مشورے کے بعد چند افراد کو اپنے ساتھ لیا اور مدینہ منوّرہ سے پانچ کلومیٹر دور عریض نامی جگہ پر مسلمانوں کے کھجوروں کے باغات کو آگ لگا دی۔ 17جانوروں کے چارے کو جلا ڈالا اور وہاں موجود دو گھروں کو بھی نذرِ آتش کر دیا۔اس کے ساتھ ساتھ دو نہتے مسلمان معبد بن امر انصاری اور ان کے ساتھی کو اکیلا اور غیر مسلح پا کر انہیں بھی شہید کر ڈالا۔18
حضور ﷺکو جب اپنے ایک صحابی کی شہادت اور ان کے دوسرے ساتھی کے قتل کے بارے میں خبر ہوئی تو آپ نے 200 صحابہ کرام
20 پر مشتمل لشکر تیار فرما کر حضرت ابو لبابہ بشیر بن عبدالمنذر کو مدینہ منوّرہ میں اپنا قائم مقام نائب مقرر فرمایا اور خود اس لشکر کے ہمراہ کفّار مکہ کے تعاقب میں نکل پڑے۔ کفّار مکہ کو جب مسلمانوں کے لشکر کی آمد کی اطلاع ملی تو انہیں راہ فرار اختیار کرنے میں ہی عافیت نظر آئی اور وہ فوری طور پر مدینہ منوّرہ کے مضافات سے مکہ کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔ 21
ابو سفیان کا لشکر جلد از جلد مسلمانوں کی پہنچ سے دور جانا چاہتا تھا لیکن ان کے ساتھ ان کے کھانے پینے اور استعمال کے سامان نے ان کے لیے بوجھ کی شکل اختیار کر لی تھی جس کو ہلکا کرنا ضروری تھا لہذا قریش کے لشکر نے ستوکے توشے اور بہت سارا ساز و سامان راستے میں پھینک کر اس بوجھ سے اپنی جان چھڑائی اور تیزی سے مدینہ منوّرہ سے دور ہوتے چلے گئے حضور ﷺنے اپنے مجاہدین کے لشکر کے ساتھ قر قرۃ الکدر تک ان کا پیچھا کیا۔راستے میں جہاں بھی ستووں اور سامانوں کے بورے ملتے گئے حضور ﷺکے صحابہ
مال غنیمت سمجھ کر اسے اٹھاتے اور جمع کرتے رہے۔کثرت کے ساتھ دشمن سے ستو کی بوریاں ملنے کی وجہ سے اس غزوہ کو غزوہ سَویق کہا جاتا ہے کیونکہ سویق کا مطلب عربی زبان میں ستو ہوتا ہے۔چنانچہ آپ ﷺنے قرقرۃ الکدر پہنچ کر کچھ وقت قیام فرمایا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ کفّار اب بہت دور جا چکے ہیں اور ان کی واپسی ممکن نہیں تو حضور ﷺنے کفّار کا تعاقب ختم کر کے اپنے صحابہ کرام
کو مدینہ منوّرہ واپسی کا حکم دیا۔22
کا حضور ﷺسے سوالاس غزوہ میں حضور ﷺکے صحابہ کرام
نے ابو سفیان کے ماتحتی میں آنے والےمشرکین مکہ کے لشکر کا تعاقب تو کیا لیکن جنگ و جدال کی کوئی نوبت نہیں آئی اس لیے صحابہ کرام
کو گمان یہ ہوا کہ آیا یہ سفرِ جہاد اللہ کی بارگاہ میں جہاد کے طور پر شمار کیا جائے گا یا نہیں ؟ لہٰذا اپنے قلبی اطمینان کے لیے انہوں نے حضور ﷺسے عرض کرتے ہوئے پوچھا: اے اللہ کے رسول ﷺ!کیا آپ ہمارے اس سفر کو غزوہ سمجھتے ہیں؟ آپ ﷺنے جواب میں ارشاد فرمایا:" جی ہاں"۔23
اس غزوہ میں مسلمانوں کو نقصان ان کے ایک ساتھی کی شہادت ، ان کے دوست کے قتل اور باغ و فصل کے نقصان کی صورت میں ضرور برداشت کرنا پڑا لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے دشمن کفّارِ مکہ جو مسلمانوں کو شکست دے کر مغلوب کرنا چاہتے تھے وہ اپنے ارادوں میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کی طرف سے بھرپور تیاری اور انہیں فوری طور پر جوابی حملے کی صورت میں اہلِ مکہ، میدان ِ جنگ میں آکر لڑنے کے بجائے راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ مالِ غنیمت کے طور پر مسلمانوں کو بڑی مقدار میں کفّار کے پھینکے اور چھوڑے ہوئے ستو ملے جو اس وقت مسلمانوں کے لیے سفر و حضر میں اہم غذا تھی ۔ اس غزوہ نے قریشِ مکہ کی رہی سہی ہمت اور قوت کو بھی آشکارا کردیا کہ وہ دل میں مسلمانوں سے بری طرح خوفزدہ ہیں ۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کو اس غزوہ کے بعد کفّار مکہ پر مزید رعب و دبدبہ قائم کرنے میں بھی مدد ملی۔